۔۔۔۔۔۔۔عورت اور خاتون۔۔۔۔
آخری قسط

اسی ادھیڑ بن میں اپنی جان بچا لینے کی فکر میں ہوں کہ ایک اور جانکاہ منظر میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہۓ۔ ایک معصوم و مجبور بے زبان لڑکی اپنے ذہن پر ماں باپ کی حسرت و افسردگی اور پریشانیوں بھرے چہرے کے انمٹ نقوش لئے اپنے شوہر کے گھر کو سِدھار چکی ہۓ۔ سارے گھر والوں کے چہرے پر برستی حسرتوں کا نقشہ اس کے دل و دماغ پر مرتسم ہو گیا ہۓ۔ جہیز اور مطالبوں کے بارِگراں سے اس کے گھر کی اقتصادی حالت بالکل تباہ ہو چکی ہۓ۔ راستہ بھر وہ یہی سوچتی آئ تھی کہ ایسے ظالم اور بے رحم سسرال والوں کا منہ بھی نہیں دیکھے گی۔

لیکن ہاۓ ری مجبوری! سسرال پہنچ کر وہ ایسا نہیں کر پاتی۔ انہیں سسرال والوں میں ایک اس کا شوہر بھی تو ہۓ۔ نفرتوں کا ایک لاوہ اس کے اس کے اندر ابل پڑنے کو بے قرار ہۓ۔ مگر کرے تو کرے کیا؟ اس کے شوہر کے بارہ میں رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہۓ کہ اس کی اطاعت کرنا ہوگی۔ اگر خدا کے بعد کسی کو سجدہ جائز ہوتا تو آپ صل اللہ علیہ وسلم بیویوں کو حکم فرماتے کہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں۔ شوہر بیوی کا مجازی خدا ہوتا ہۓ۔

ہا۔۔۔۔۔ ! کیا قسمت ہۓ کہ ایک ایسا شخص جس نے میرے بیچارے، بوڑھے، بیمار، ناتواں باپ کو قرض کے بھاری بوجھ تلے دب جانے پر مجبور کر دیا اب میرا مجازی خدا بن چکا ہۓ۔ اب اس کے سوا کوئ چارہ نہیں کہ اپنے مجبور باپ کی زبوں حالی پر کڑھتی رہوں۔ تنہائ میں دو آنسو گرا لوں ۔۔۔۔۔ اے میرے اللہ اگر تونے خودکشی حرام نہ کی ہوتی تو میں ایسی شادی سے پہلے زہر کھا کر خودکشی کر لیتی۔ میرے پیارے ابو جی کو زندگی بھر کی پریشانیوں سے نجات تو مل جاتی۔۔۔۔ ماں باپ چار دن رو پیٹ لینے پھر صبر آہی جاتا۔ مرنے کا غم ہوتا تو کیا، پریشانیوں سے کمر تو نہ ٹوٹتی۔۔۔

عورت تیرا نام کمزوری ہۓ۔۔۔!

اب تھوڑا دم لے لیں۔ دوسرا منظر آنے میں کچھ دیر ہۓ۔ تازہ دم ہو کر اسی گھر میں پھر آیا جاۓ گا۔۔۔ ہاں اب چلیں میرے ساتھ۔۔۔۔۔ یاد ہۓ ناں! یہ وہی گھر ہۓ جہاں کل وہ مجبور و بے بس لڑکی بیاہ کر آئ تھی جس کے دل و دماغ سے گھر کے ایک ایک فرد کی بے چارگی اور افسردگی کی تصویر مٹاۓ نہ مٹتی تھی۔ اب وہ اس گھر کی مختارِکل بن چکی ہۓ۔ دھیرے دھیرے پورے گھر پر اس کا تسلط قائم ہو چکا ہۓ۔ اب اس گھر میں اس کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔ کل محکوم بن کر آئ تھی آج اللہ نے اسے اس کا حاکم بنا دیا ہۓ۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔؟ اب اس نے بیٹی سے بیوی بننے تک کے کانٹوں بھرے رستے کے سفر کی ساری روداد بھلا دی ہۓ۔ اپنے باپ، اپنے بھائ، اپنے کنبہ کے لوگوں کی بے چارگی اور حسرت بھری تصویریں شاید اپنے ذہن کے نہاں خانوں سے بھی نکال دی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ اب وہ اپنی ہی جنس سے تعلق رکھنے والی ایک معصوم اور مجبور ہستی پر غلامی کی بندشیں سخت کرنے میں بدنام مرد کو بھر پور تعاون دینے کی تیاریوں جٹی ہۓ حالانکہ یہ وہ موقع ہۓ کہ اگر وہ چاہے تو ایک انقلاب برپا کر سکتی ہۓ۔ وقت کی طنابیں اب اس کی مٹھی میں آ چکی ہیں۔

اس کی اپنی گود میں پل کر جوان ہونے والے لاڈلے کی شادی کو موقع پر اس کے سینے میں ارمانوں، تمناؤں اور خواہشات کا ایک سمندر موجزن ہۓ۔ اپنے بیٹے کے لئے وہ صرف ایک چاند کا ٹکڑا نہیں تلاش کر رہی ہۓ۔۔۔۔۔۔۔ایک سگھڑ اور سلیقہ شعار لڑکی اس کی جستجو کا مآل نہیں بلکہ وہ دل سے چاہ رہی ہۓ کہ اس کی ہونے والی بہو کسی راک فیلر، کسی ہنری فورڈ، کسی خشوگی، کسی ٹاٹا، برلا، ڈالمیا اور زرداری، اصفہانی کی آنکھوں کا تارا۔۔۔۔۔۔۔۔منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئ ہو۔۔۔۔۔۔تاکہ میکے سے رخصت ہو کر اس کے گھر اپنی جہیز میں ملی کار میں آۓ۔۔۔۔۔۔۔ اسمارٹ ٹی وی، اے۔سی، فرج، واشنگ مشین، دنیا جہان کی آسائشی اشیاء کے ساتھ جواہرات اور سونے چاندی کے زیوروں کا ایک ڈھیر لاۓ۔ اس کا گھر اس کی روشنی سے جگمگا اٹھے اور دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ ہو جائیں۔ اس کی بیٹیاں بھی اپنے ماں جاۓ کی شادی کے موقعہ پر نیگ میں اپنے وزن سے زیادہ چیزیں پانے کی تمنا میں خوشی سے پھولی نہیں سماتیں۔ اپنی پیاری بھابھی جان کو جہیز میں ملے سامانوں میں اپنی اپنی پسند کی چیزیں بحقِ خویش ضبط کی جانے والی اشیاء کی فہرست تیار کرنے میں لگی ہیں۔ مجھے بتائیں کہ اس وقت سماج کا وہ ٹھیکیدار کہاں کھڑا ہۓ جس نے اس عورت کو ظلم و استحصال کی چکی میں پسنے پر مجبور کر چھوڑا تھا؟؟

اب موقعہ آگیا ہۓ کہ اس جانب بھی اشارہ کر دوں جب حالات عورت کے اختیار میں آجاتے ہیں۔ بالخصوص یہ دیکھا گیا ہۓ کہ عورت جب اپنی نافرمان سے نافرمان اولاد سے بھی اپنی بات منوانا چاہتی ہۓ تو دودھ نہ بخشنے کا حربہ استعمال کر کے اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتی ہۓ۔ کیا ایسے وقت میں اگر وہ چاہے کہ شادی جیسا مبارک کام تجارت نہ بن جاۓ (یہ قید بیٹوں کی ماؤں کے لئے ہۓ) تو پھر وہ اپنے اس آزمودہ حربے کا استعمال کیوں نہیں کرتی؟ کیوں نہیں کہتی کہ اگر تو نے اپنی شادی میں کوئ مطالبہ کیا تو میں تیرا دودھ نہیں بخشوں گی۔ تیری شکل نہ دیکھوں گی وغیرہ وغیرہ۔

تھوڑی دیر کے لئے میرے ساتھ اسی مقام پر چلیں جہاں میں نے معاشرہ میں پھیلی خرابیوں کی جڑ گھر اور خاندان میں تلاش کی تھی۔ اب کچھ ہی دیر ہۓ کہ ایک گھر اور خاندان کی تعمیر شروع ہونے والی ہۓ۔ خام مال کو کھرا ثابت کرنے کی پوری تیاریاں ہو چکی ہیں۔ اس خاندان کی خشتِ اوّل بھی ٹیڑھی رکھی جاۓ گی اور ۔۔۔۔۔

؎ خشتِ اوّل چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج

ایک اسی منظر پر بس نہیں۔ عورتوں کی ذہنی کیفیات کی پوری عکاسی تو نہیں کر سکتا لیکن اتنا ضرور دیکھا ہۓ کہ اگر بہو توقع سے کچھ کم چیزیں لاتی ہۓ تو اسے “خالی ہاتھ” بیاہے جانے کے طعنے کون دیتا ہۓ۔ کیا وہ عورت نہیں ہوتی؟ کیا صرف شوہر اس کے باپ کی غربتوں کا مذاق اڑاتا ہۓ؟ اگر صرف شوہر ہی ایسا کرتا ہۓ تو اس کے اندر اس بھِک منگے اور بھُک مرے انسان کی نشونما کا ذمہ دار کون ہۓ؟ اس کی ماں کیوں آگے نہیں آتی؟

اور پھر اگر کہیں اس نئ بہو کو آنے کے بعد گھر پر کوئ سی بھی افتاد آ پڑتی ہۓ، کوئ پریشانی درپیش ہوتی ہۓ، کوئ شدید طور پر بیمار پڑ جاۓ یا پھر اپنے مقررہ وقت کے مطابق اس دنیا سے سِدھار جاتا ہۓ تو اس غریب معصوم بے زبان کو سبز قدم اور منحوس جیسے مستند خطابات کس کی بارگاہِ عالی جناب سے عطا ہوتے ہیں؟

اے عورت تیرا نام کمزوری ہۓ؟۔۔؟۔۔!

مجھے آج کے معاشرہ میں ایسی عورتیں دکھا دیں جنہوں نے اپنی ہی ہم جنس کی بے وقعتی روکنے میں پہل کی ہو۔۔۔۔ جنہوں نے اپنی گود میں پل کر کڑیل جوان بننے والے سپوتوں کو جنسِ بازار کی طرح بکنے اور نیلام ہونے کی روش کی مخالفت کی ہو۔۔۔؟ حالانکہ وہ اس وقت مجبور نہیں رہتیں۔

میں ایسی عظیم خواتین۔۔۔ ایسی پُر تقدس ماؤں۔۔۔ ایسی با وقار بہنوں کے حضور بصد احترام اپنا سلام پیش کر کے ان کی دعائیں سمیٹ لینے کو بے قرار ہوں۔ ہۓ کوئ جو مجھے دعائیں دینے کو آگے آۓ؟ جس کی دعاؤں کی برکت سے میرے گھر میں اجالا ہو جاۓ۔۔۔۔!

معاشرے کو ایسی بیٹیاں درکار ہیں جن کے دلوں میں یہ عزم جاگزیں ہو جاۓ کہ وہ اپنے بیٹوں کو نیلام نہیں ہونے دیں گی۔۔۔۔ ہۓ کوئ بیٹی جو معاشرے کے کمزور و ناتواں طبقے کی دعائیں سمیٹ لینے کو اپنا دامن پسار دے؟

مجھے ایسی بہنوں کی تلاش ہۓ جو یہ کہیں کہ اب میری کوئ بہن جہیز کی قربان گاہ پر میرے جیتے جی نہیں چڑھ سکتی۔ میں اس کی پیشانی چوم کر اس کے سہاگ کے قائم رہنے کی دعائیں دینے کو بے چین ہوں۔۔۔۔۔ ہۓ کوئ جو اپنے سہاگ کی سلامتی کی خاطر یہ آواز بلند کر سکے۔۔؟

مجھے ایسے بھائیوں اور بیٹوں کی کھوج ہۓ جو فخر سے اپنا سر اونچا کر کے یہ کہیں کہ ہم جنسِ بازار بننے والوں میں نہیں کہ ہماری بولیاں لگائ جائیں۔۔۔۔ ہۓ کوئ جواں مرد۔۔۔؟ خیرات میں ملی دولت پر تھوکنے والا۔۔۔؟

میں ایسے علماء کی تلاش میں ہوں جو وقت کے تقاضوں کے مدِنظر شرع میں اجتہاد کے نام پر۔۔۔۔ اعلاۓ کلمۃ الحق کے طور پر یہ آواز بلند کر سکیں کہ مطالبوں کی شرط پر کی گئ شادیاں حرام ہیں۔ کم از کم یہی کہہ دیں کہ وہ نکاح ہی نہیں ہوتا جس میں عورت کے حقِ مہر سے زیادہ مالیت شوہر کے ذریعہ کئے گۓ مطالبوں کی ہوتی ہۓ۔۔۔۔میں نہایت عقیدت سے ایسے مردانِ حق آگاہ کے ہاتھ چوم لوں۔۔۔!!

12-07-2020

____________________________________________________

عورت اور خاتون” : چوتھی قسط”

گھر یا خاندان کی تشکیل کے لئے دو چیزیں ضروری ہیں۔ یہ خام مال ہوئیں۔ انہیں باہم جوڑے رکھنے کے لئے رفاقتوں کے مصالحے کی ضرورت ہوتی ہۓ۔ واضح ہوا کہ یہ دونوں اپنی جداگانہ حیثیت میں خام مال ہیں۔ جب تک رفاقتوں کے مصالحے سے جوڑ کر انہیں حالات کی بھٹی میں پکنے کو چھوڑ نہیں دیا جاتا اس وقت تک یہ خام ہی ہیں۔ اگر رفاقتوں میں دم ہوا تو جو گھر بنے گا وہ پختہ بنیادوں پر کھڑا ہوگا اور اگر مصالحہ ناقص اور بودا ہوا تو دونوں کو باہم پیوست نہیں رکھ پاۓ گا، چنانچہ گھر نہیں بن پاۓ گا۔۔۔۔۔ ایک ملبہ یا ڈھیر بن جاۓ گا اور اس ڈھیر سے برائیوں کا غبار اٹھتا رہے گا جس سے ماحول مسموم ہوتا ہوتا چلا جاۓ گا۔۔۔۔یہاں تک کہ یہ برائ معاشرہ میں سرایت کر جاۓ گی اور دھیرے دھیرے سارے معاشرہ پر حاوی ہو جاۓ گی۔

دونوں خام مال جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہۓ آپ نے پہچان ہی لئے ہوں گے کہ عرفِ عام میں ایک کو مرد اور دوسرے کو کو عورت کہتے ہیں۔ اب ذرا رفاقتوں کے اجزاۓ ترکیبی پر بھی نظر کرتے چلیں۔ یہ مصالحہ محبت، ایثار، وفا، خلوص، اطاعت، سچائ، دیانتداری، ادائیگئ فرض، حفاظتِ حقوق، سخت کوشی، احساسِ ذمہ داری اور اعتمادِ باہمی کا ایک متوازن مرکب ہوتا ہۓ۔ ان میں سے کوئ ایک کم ہو جاۓ یا دونوں خام مال میں کوئ ایک اسے بہ حیثیتِ مجموعی یا اس کے کسی ایک جزو کو قبول نہ کرے تو یہ مصالحہ سوکھ کر بے بےکار ہو جاتا ہۓ۔ جب تک یہ مصالحہ تازہ رہتا ہۓ اس کے اندر خودبخود دوسرے اجزاء بھی ایک کیمیاوی ردِعمل (Chemical Reaction) کی مانند پیدا ہوتے رہتے ہیں جو اس مصالحہ کی قوت میں اضافہ اور اس کی گرفت مضبوط کرتے رہتے ہیں۔

اب ان تمام باتوں کو ذہن میں رکھ کر اس ایک تقریب میں چلیں جہاں اس معاشرہ کی ایک تازہ اکائ کی تشکیل و تعمیر کی جا رہی ہۓ۔ اس تعمیر میں کام آنے والے دونوں اجزاء ابھی خام ہیں۔ جب تک انہیں رفاقتوں جیسے مصالحے سے جوڑ کر کڑی دھوپ جیسے حالات کی بھٹی میں پکنے کے لئے نہیں چھوڑا جاۓ گا ان میں سے کوئ ایک بھی پختہ نہیں بن پاۓ گا۔ بلکہ پختگی دونوں میں بہ یک وقت ہی آۓ گی۔ لیکن اس تقریب میں خواہ مخواہ ایک کو کھرا اور پختہ مان لیا گیا ہۓ اور اس کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں۔۔۔۔اگر پختہ بنانے کے عمل سے گزارے بغیر ایک کو کھرا مان بھی لیں تو دوسرے کو کھوٹا کیوں کہا جاۓ؟ اور پھر یہ کہاں کا انصاف ہۓ اور کیسی دانشمندی ہۓ کہ ایک کھرے مال کو دوسرے کھوٹے اور کچے مال کے ساتھ لگایا جا رہا ہۓ۔۔۔ یہ عدم توازن کیوں؟ بہتر یہی ہۓ کہ اگر دوسرا مال کھوٹا اور کچا ہۓ تو لے آؤ ڈھونڈ کر اس کا نعم البدل اور تب بناؤ ایک نوطرز آشیاں!

اب بلا تمثیل یہ کہنا چاہتا ہوں کہ شادی بیاہ کے موقعوں پر جب دراصل معاشرہ کی ایک جداگانہ مزید اکائ کی تشکیل کی جا رہی ہوتی ہۓ تو ناکارہ سے ناکارہ مرد کی بھی گراں قدر قیمت کیوں چکانی پڑتی ہۓ؟ ایسے موقعوں پر ان شرائط سے عورت کیوں مفاہمت کر لیتی ہۓ؟ اور جب معاملہ اس کے اختیار میں آجاتا ہۓ تو وہ بجاۓ احتجاج اور اختلاف کے اپنی بے حسی اور بے عملی کا مظاہرہ کیوں کرتی ہۓ؟ یہ کس کا قصور ہۓ؟ کیا اس کی خاموشی، اس کی بے حسی، اس کی بے اعتنائ اس بر خود غلط دعوے کی تصدیق نہیں کرتی کہ “اچھے لڑکے بڑی مشکل سے ملتے ہیں”۔۔۔۔۔۔ حالانکہ وہ آچھا ہۓ یا نہیں ابھی ثابت نہیں ہو پایا ہۓ۔ اچھے مرد یا اچھی عورتیں باہمی رفاقت کے بعد ہی تو بن پاتے ہیں۔ اس بندھن میں بندھنے کے قبل وہ صرف مرد اور صرف عورت رہتے ہیں۔ چلئے تھوڑی دیر کے لئے یہ مان بھی لیں کہ اچھے لڑکے بڑی مشکل سے ملتے ہیں تو کیا اچھی لڑکیاں بڑی آسانی سے مل جاتی ہیں؟

اچھے لڑکے کمیاب ہیں تو اچھی لڑکیاں ۔۔۔۔۔ میری ذاتی راۓ ہۓ کہ اچھی لڑکیاں نسبتاً اور بھی کمیاب ہیں۔ لہذا اگر ان نام نہاد اچھے لڑکوں کی اسی طرح حوصلہ افزائ کی جاتی رہی تو نتیجہ اس سے بھی بھیانک ہو گا۔ عورتیں اپنی موجودہ حالت کے مقابلہ میں کہیں زیادہ بدتر حال کو پہنچ جائیں گی۔ اور اس بدتر بلکہ بدترین حالت پر پہنچنے کی وہ خود ذمہ دار ہوں گی۔ ان کی خاموشی، ان کی مفاہمت، ان کی بے حسی، یہ سب ان کی مجبوری کہلانے کی مستحق نہیں۔ اس میں ان کی اپنی رضامندی شامل ہۓ اور یہ بدترین حالت؟
؏ اے بادِصبا ایں ہمہ آوردہ تست

مزہ آجاۓ اگر میں اپنی بات یہیں پر ختم کر دوں۔ عورتیں یک زبان ہو کر اپنی بے چارگیوں اور مجبوریوں کی دہائ دینے لگیں گی۔۔۔۔ سماج کے مفروضہ ٹھیکہ داروں اور مَردوں کے مظالم کی داستانیں شروع ہو جائیں گی۔ میں ان کی آوازیں سن رہا ہوں۔ نہائت جوش اور ولولہ کے ساتھ ماں باپ کی عزت اور وقار کے حوالے دئے جانے لگے ہیں۔ مجھ سے یہ سوال کیا جا رہا ہۓ کہ کیا ایسے نازک موقع پر لڑکی کی لب کشائ کا تصور بھی کیا جا سکتا ہۓ؟ ان کی برہم اور بلند تر ہوتی آوازیں میرے کانوں کے پردے پھاڑے ڈال رہی ہیں۔ لڑکی کی لب کشائ کی جسارت کے اشارہ میں پوچھا گیا ان کا سوال بھی میری سمجھ میں آگیا ہۓ، یعنی شادی سے انکار؟

میں خاموش کیوں نہ ہو جاؤں! واقعی اگر عورت محکوم و مجبورِ ازلی ہۓ تو وہ اس وقت کر بھی کیا سکتی ہۓ؟ شادی سے انکار کر کے وہ یقیناً باپ کی ناک کٹنے کا مؤجب ہوگی۔ اسکی اس حرکت سے تو یقیناً پشتہا پشت سے چلی آ رہی خاندان کی نیک نامی پر ایک کریہہ دھبہ لگ جاۓ گا۔ شادی سے انکار جیسی ذلیل حرکت؟ معاشرہ اسے کبھی معاف نہ کرے گا اور خود وہ کہیں منہ دکھانے کے قابل نہ رہ جاۓ گی۔۔۔۔۔ آئینہ کو بھی ! شاید اس کی ان ہی مجبوریوں سے آگاہ ہو چکا تھا شیکسپئر بھی، بالخصوص برصغیر کی عورتوں کی مجبوری سے۔ شاید ان ہی مجبوریوں کو سامنے رکھ کر بے چارگی کے اس افسانہ کو ایک عنوان دیا تھا اس نے۔۔۔! “عورت تیرا نام کمزوری ہۓ”۔

03-07-2020 posted on Facebook

_______________________________________________________

عورت اور خاتون ” :تیسری قسط”

ہادئ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِ گرامی کی معنویت پر غور کریں تو شاید یہ وجدان حاصل ہو جاۓ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تین چیزیں اپنی محبوب بتائ ہیں ان میں ایک مترجمین کے ترجموں کے مطابق تو عورت ہی ہۓ۔ لیکن ترجمے چونکہ اصل مطلب سے قاصر رہتے ہیں لہذا میں اس میں عورت سے خاتون مراد لیتا ہوں۔

اور پھر قادر مطلق کا اپنا ارشاد کہ اَلرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَاء مجھے دعوتِ فکر دیتا ہۓ، اس منزل کی طرف بلاتا ہۓ جہاں ممکن ہۓ یہ وجدان حاصل ہو جاۓ۔

بہ تقاضاۓ انانیت مَردوں نے “قوامون” میں مضمر “حقوق و فرائض” میں سے بالعموم صرف حقوق کو ہی فوقیت دی۔ حالانکہ اس پر بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی گرفت ڈھیلی ہوتی گئ لیکن ملزوم کو بہرحال فراموش کر دیا۔ ملزوم سے اس تغافل مجرمانہ نے فطری طور پر عورتوں کو چراغ پا کر دیا۔ لیکن خواتین خاموش رہیں۔ بے بسی کے سبب نہیں بلکہ انہیں یہ اعتماد رہا کہ یہ جہانِ رنگ و بو انہیں کے دم سے آباد ہونا ہۓ۔ وہ خموشی اور صبر سے اپنا کام کرتی رہیں، غافل نہیں ہوئیں۔ ہاں زیرِ تکمیل خواتین (Ladies in the making) اور نیم مکمل خواتین (Under processed ladies) سے کہیں کہیں لغزشیں سرزد ہو گئیں۔ وجہ اس کی یہ رہی کہ عورت بہلاووں اور بہکاووں میں بہت جلد آجاتی ہۓ شاید اس کی اسی افتاد کے پیشِ نظر خلاقِ عالم نے مَردوں کو اس پر “قوامون” قرار دیا ہوگا۔

یہاں یہ واضح کر دوں کہ خود کو “سماج کا ٹھیکہ دار” جیسے مہتمم بالشان خطاب کا اہل نہیں سمجھتا لیکن جب فطرت کی عائد کردہ کچھ حدود ٹوٹتی اور پامال ہوتی دیکھتا ہوں تو تکلیف ضرور ہوتی ہۓ۔ بالخصوص اس وقت جب حدود کی اس شکست و ریخت کی حمایت ان مفروضہ سماجی ٹھیکہ داروں سے بغاوت اور ان کے خلاف ردِعمل کے نام پر لاطائل دلائل سے کی جانے لگتی ہۓ۔ اس تکلیف کا سبب یا غایتِ بنیادی یہ ہۓ کہ میں عورتوں کو ان کی تمام تر عظمتوں اور بلندیوں کے ساتھ خواتین کے منصب پر فائز دیکھنے کی تمنا رکھتا ہوں جہاں ازخود اس کی تائید ہو جاۓ کہ

؏ وجودِ زن سے ہۓ تصویرِ کائنات میں رنگ

اور اس رنگ پر پانی پھیرنے کے لئے جن بے اعتدالیوں کو آزادئ نسواں (Women liberation) کا نام دیا جاتا ہۓ بظاہر وہ بڑی دلکش نظر آتی ہیں لیکن اس آزادئ نسواں کی منزلِ آخریں تو کجا جادۂ اولین بھی تباہ کن ہۓ۔ عورت کے بہلاووں، بہکاووں میں آنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہۓ کہ وہ کوکھ سوکھ جاتی ہۓ جس سے خالد و طارق پیدا ہو سکتے تھے۔ وہ گود ویران ہو جاتی ہۓ جس میں طوسی و رازی پروان چڑھ سکتے تھے وہ اولین تربیت گاہ پامال ہو جاتی پۓ جو زمانہ کو بخاری و مسلم عطا کر سکتی تھی اور ممتا کے وہ سوتے خشک ہو جاتے ہیں جن سے سیراب ہو کر کوئ اسمٰعیل آدابِ فرزندی کے رموز سیکھ سکتا تھا۔ جس سراب کے پیچھے دوڑتے رہنے کو عورت اپنی معراجِ حیات سمجھ بیٹھتی ہۓ اس کے نتائج دیکھ کر اہلِ خبر و بصر غرقِ دریائے حیرت ہو جاتے ہیں کہ

؏ آنکھ جو کچھ دیکھتی ہۓ لب پر آ سکتا نہیں

ہاں بے خبر و کور نظر ضرور چیخ اٹھتے ہیں۔ انہیں یہ کہنے کا زریں موقع ہاتھ آجاتا ہۓ کہ

؎ خلد سے مکر کا تلخابۂ شیریں دے کر
جس نے آدم کو نکالا وہ گنہگار ہو تم

اور اسی موڑ پر یہ بحث بھی چِھڑ جاتی ہۓ کہ از روۓ احکامِ فطرت مرد کا درجہ زیادہ بلند ہۓ یا عورت کا؟

بزعمِ برتری “قوامون” کی اصلیت سے بے اعتنائ برتنے والا مرد یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ اللہ نے نبوت جیسا ارفع و اعلیٰ مقام بخشنے کے لۓ مرد اور صرف مرد کا ہی انتخاب کیا۔ بایں ہمہ ہر دور کے مفکروں اور دانشوروں نے جب کبھی کسی قوم کے عروج و زوال کا جائزہ لینا چاہا تو اس کی میزان بنایا اس کے معاشرہ میں عورتوں کے مقام و مرتبہ کو۔ اور انہیں یہی کرنا بھی تھا۔ کیونکہ اس حاکمِ اصلی اور قادرِ مطلق نے جس نے مَردوں کو “قوامون” قرار دیا جب اپنی قدرتِ کاملہ کا رہتی دنیا تک ناقابلِ تردید ثبوت دینے کا ارادہ کیا تو ایک مسیحا نفس اور صاحبِ اعجاز نبی کے وجود میں لانے کا شرف تنہا مریم (سلامُٗ علیھا) کو ہی بخشا۔ عورت کو تقدیس و عظمت کی منزلوں تک پہنچانے میں مرد برابر کا شریکِ کار قرار نہیں دیا جا سکتا۔

شکوہ تو اس بات کا ہۓ کہ اگر مَردوں نے بہ تقاضاۓ انانیت عورت اور مرد کے مابین لطیف فرق کو کثیف تر بنا دیا تو عورتوں نے بھی بر بناۓ حماقت ان کے برخود غلط خیالات کو پنپنے کا موقع دے کر ان کے موقف کی تائید کر دی اور اس طرح اپنی محکومی کی بندشیں تنگ کر دیں۔

اپنی عظمتوں کا اعتراف کرانے کے لۓ کسی تحریک، کسی انقلاب یا کسی بغاوت کی ضرورت نہ تھی کیونکہ اس سے فطری طور پر زیادہ شدید ردِعمل بھی لازمی طور پر سامنے آۓ گا۔ اگر عورتیں یہ دہائ دیں کہ عورت محکومی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہۓ اور اس کے ذمہ دار سماج کے ٹھیکیدار ہیں تو اس کے بر عکس میں یہ کہوں گا کہ عورتیں خود اپنی محکومی اور تباہی کی ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے اپنے استحصال میں مَردوں کی حوصلہ افزائ کی ہۓ۔ صرف مرد اس کے ذمہ دار نہیں ٹھہراۓ جا سکتے کیونکہ عورتیں بہلاووں بہکاووں میں بڑی تیزی سے آجاتی ہیں۔

اپنے نظریہ کی وضاحت کے لۓ اب مجھے آپ کو اپنے ساتھ لے کر معاشرہ میں پیدا ہونے والی برائیوں کی جاۓ پیدائش تلاش کرنی ہوگی۔۔۔۔علمِ سماجیات نے نشاندہی کی اور معاشرہ نے یہ تسلیم کیا کہ یہ جگہ، گھر یا خاندان ہۓ کیونکہ یہی اس کی اکائ ہۓ۔ یہ اور اس جیسی لاتعداد اکائیاں مل کر معاشرہ کی تشکیل کرتی ہیں۔ معاشرہ کی اچھائیوں اور برائیوں کی جڑیں اسی گھر یا خاندان سے نکلتی ہیں۔

25-06-2020 posted on Facebook
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“عورت اور خاتون”
دوسری قسط

آپ نے سماج کے ناسور تو دیکھے ہوں گے۔۔۔۔۔ میرے دکھانے پر نہیں خود ہی دیکھے ہوں گے۔۔۔ لیکن اب ان سے اغماض برتنے اور چشم پوشی پر اصرار کیوں؟ یہی چشم پوشی تو ہمارا جرم ہۓ۔ اس جرم میں مرد اور عورت دونوں ملوث ہیں اس لۓ کسی ایک کو چشم پوشی پر مجبور بتاتے ہوۓ اس کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دینا ہماری بد دیانتی ہو گی۔

آپ نے لڑکوں اور لڑکیوں کے مابین گھروں میں برتی جانے والی تفریق کی تکلیف دہ صداقت کی جانب بھی نظریں کی ہوں گی۔ میری دعا ہے کہ ہر لڑکی اسے محسوس کر لے۔ لیکن صرف محسوس کر لینا علاج نہیں۔۔۔۔ خاموش بیٹھ رہنے سے تو یہ ناسور دن بہ دن بڑھتا ہی جاۓ گا۔۔۔۔ اور سڑانڈ پیدا ہو گی اس میں !

اس جیسے تمام ناسوروں کی پیدائش ہی نہ ہو ۔۔۔۔ یا پھر اگر ایسے ناسور پیدا ہو بھی جائیں تو ان کے بروقت علاج کے لئے محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تیر بہ ہدف نسخہ تجویز فرمایا ۔۔۔۔طَلَبَ الࣿعِلࣿمُ فَرِیࣿضَۃُٗ عَلٰی کُلِِّ مُسࣿلِم ۔۔ بلا تفریقِ جنس ۔۔۔۔ لیکن ہم نے اس سے روگردانی برتی اور سماج میں ناسور پیدا ہونے لگے اور ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہم اس نسخہ کو اپنانے سے گریز کرتے رہیں گے۔ اس نسخہ کو اپنانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ برکت ہوگی کہ ہمارا ایمان اس صداقت پر بھی ہو جاۓ گا کہ لڑکیاں زحمت نہیں رحمت ہیں اور نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث اس پر گواہ ! ہادئ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات سے منہ موڑنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ لڑکی ہزار زحمتیں نظر آنے لگی۔

اس تلخ حقیقت کو ہم سب محسوس کریں تو یقیناً آگے کی راہیں کھلتی نظر آئیں گی اور میں نے اس لئے یہ دعا کی کہ ہر لڑکی یہ محسوس بھی کر لے کیونکہ اس کے بعد ہی اس کا امکان نظر آتا ہۓ کہ وہ ان ناسوروں کے ازالہ کا عزم بھی کرے۔ فرض کریں آپ اور آپ کے ساتھ کی دس لڑکیوں نے یہ ناسور دیکھ لئے اور ان کے ازالہ پر کمر بستہ بھی ہو گئیں تو ان کی حد تک تو یہ ناسور پھیل نہیں پائیں گے اور متواتر احتیاط ایک کامیاب علاج ثابت ہوگا۔

اس طرح شادی بیاہ کے موقعوں پر مطالبوں کی لعنت کا ناسور۔۔۔۔ یہ بھی ختم ہو سکتا ہۓ اگر میری عمر بلکہ مجھ سے ذرا بڑی عمر کی عورتیں یہ عہد کر لیں کہ ان کی گودوں میں پلے ان کے لاڈلوں کی شادی اس لعنت سے پاک رہے گی تو اسی نسل میں نسلوں سے چلی آرہی اس برائ کا خاتمہ ہو سکتا ہۓ۔ کم از کم خاتمہ کا عمل تو شروع ہو جاۓ گا۔

ہو سکتا ہۓ کہ اب تک مجھ پر “سماج کا ٹھیکیدار” ہونے کا الزام لگ چکا ہو۔ لیکن جہاں تک میں غور کر سکا ہوں یہ لفظ بھی ہماری زبان کے رائج العام مفروضات کی فہرست میں شامل ہۓ مثلاً “کوہِ قاف”، “آبِ حیات”، “ہمزاد” وغیرہ۔ یعنی اصلاً ان کا ان کا کوئ وجود نہیں۔ اور اس لفظ کا المیہ یا طربیہ یہ ہۓ کہ اس کی دہائ بالعموم عورتیں ہی دیتی ہیں ۔۔۔۔۔ عورتیں ۔۔۔۔۔ خواتین نہیں۔

چونکۓ مت ۔۔۔ عورت اور خاتون میں امتیاز بہت سامنے کی چیز ہۓ۔ فہم و ادراک کی آسانی کے لئے اگر صرف یہی کہنے پر اکتفا کیا جاۓ کہ چند دیگر زبانوں میں بھی اس فرق کو واضح کرنے کے لئے ہر دو کے لئے جدا جدا الفاظ کا استعمال ہوا ہۓ تو یقیناً آپ کی تشفی نہ ہو گی اور خود بھی اطمینان نہ ہوگا۔

دامن بچا لینے کی غرض سے صرف ان زبانوں سے مثال دوں گا جس سے آپ اور ہم عمومی طور پر واقف ہیں۔ ہندی میں لفظ “ناری” (नारी) اور “مَہِلا” (महिला) نیز انگریزی میں لفظ “وومن” (Woman) اور “لیڈی” (Lady) اس فرق کو واضح کرتے ہیں۔ لیکن میری بات پوری نہیں ہوتی۔ چنانچہ میرے خیال میں “عورت” اور “خاتون” کے بیچ واضح یا بَیّن امتازات الفاظ کے مرہونِ منت نہیں کیونکہ فہم و ادراک کی منزلوں سے پرے بہت پرے وجدان کی سرحدوں پر پہنچ کر ہی اس فرق کا اندازہ لگایا جا سکتا ہۓ۔ چنانچہ اقبال کو یہ وجدان حاصل ہوا تو انہیں یہ کہنا پڑا۔

وجودِ زن سے ہۓ تصویرِ کائنات میں رنگ

اور عورتوں نے اسی رنگ میں جو کائنات کی رعنائیوں میں دلآویز اضافہ کرتے، اسی رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔

18-06-2020 posted on Facebook

______________________________________________________________________

“عورت اور خاتون”
پہلی قسط

ماں کے قدموں تلے جنت کے ہونے کی بشارت کی صداقت مُسلّم اور میں اس کی عظمت و رفعت کا معترف بھی۔ اس منصب کو اس پوری صنف کے لئے قدرت کا ایک فیاضانہ انعام سمجھتا ہوں لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انعام جس قدر فیاضی سے عطا کیا جاتا ہۓ اس سے فائدہ نہ اٹھانے پر منعم کی برہمی بھی شدید ہوتی ہۓ۔


بہرحال یہ ایک سچائ ہۓ کہ اس انعام سے عورت پوری طرح بہرہ ور نہیں ہو پاتی۔ اس کی لاج رکھنا بھی اس کا بنیادی فریضہ تھا- قدموں تلے آباد ہونے والی جنت کی بشارت ایک انتہائ نازک امانت ہۓ۔ اگر اس کی اولاد نے معاشرہ کو پیہم نقصان پہنچانے میں عمر گزار دی تو کیا وہ اس جنت میں داخلہ کی مستحق قرار پاۓ گی جو قدرت نے اس کی ماں کے قدموں تلے آباد کی تھی؟


اس منصبِ عالی سے متعلق اس قول کی معنویت ۔۔۔ اس کا عمق۔۔۔ اس کی جامعیت اس کی متقاضی ہۓ کہ وہ اپنی اولاد کو اس جنت میں داخلہ کا اہل بناۓ ۔۔ اس کے اخلاق کو سنوارنے ۔۔۔ کردار کی تعمیر کرنے اور صحیح خطوط پر تربیت دینے کے فرائض سے غفلت نہ برتے۔ ورنہ ایک جانب اگر اس کی اولاد اس سہل الحصول جنت میں جانے سے محروم رہ جاۓ گی تو دوسری طرف اسے اس سعادت سے محروم رکھنے پر عورت سے بھی مواخذہ اور پرسش ہو سکتی ہۓ۔ یہی وہ آزمائش ہۓ کہ اگر اس پر عورت پوری اترے گی تو ایک خاتون کہے جانے کی مستحق ہۓ اور اس کے قدموں تلے جنت کی تلاش کرنے والی اولاد سعید و خوش بخت۔


اور پھر مرد بالخصوص شوہر کو بھی بےاعتدالیوں اور بے راہ روی سے روکنے میں عورت کی بے عملی کو اس کی معذوری کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ عورتیں جسے اپنی معذوری کہتی ہیں وہ میرے خیال میں بے عملی اور بے حسی پر پردہ ڈالنے کی ایک ناکام کوشش ہۓ۔ مرد تو عورت کی فطری اور جبلی کمزوریوں کا فائدہ اٹھانے کی تاک میں رہتا ہی ہۓ۔ انانیت اور خود پسندی کے نشہ میں ہمیشہ مخمور!


اگر عورت نے دانائ سے کام نہ لیا جو قدرت نے عطا کرنے میں بخل سے بھی کام نہیں لیا ہۓ تو اس کو کیا نام دیا جاۓ؟ ناقص العقل کسے کہیں گے؟ آئ کیو کے معیاری پیمانوں سے کم عقل ناقص العقل نہیں کہی جاتی۔۔۔ اور پھر یہ مرض خال خال ہی ہوتا ہۓ۔ ناقص العقلی سے مراد اپنی عقل سے کام نہیں لینا نہیں بلکہ عقل استعمال نہ کرنے پر مُصِر ہونا ہۓ۔ اور بدقسمتی سے یہ عورتوں کا خاصہ ہۓ۔
عورت عرفِ عام میں تو خیر عورت ہی کہلاتی رہی اس لۓ اس نے جو بھی کارنامے انجام دیۓ وہ بھی عورت کے ہی کھاتے میں ڈال دیۓ گۓ لیکن میں اسے درست نہیں سمجھتا۔ چلۓ اگر خاتون نہ کہا جاۓ تو عظیم عورت بھی کہا جا سکتا ہۓ لیکن اس سے یہ نتیجہ برآمد نہیں ہوتا کہ ہر عورت ایک عظیم عورت ہۓ۔ اپنی بات مزید واضح کرنے کے لیۓ بالخصوص ازدواجی زندگی میں اپنے شوہر سے اپنی بات منوانے میں کامیابی کی ایک نظیر اپنی کتابِ مقدس میں تلاش کریں ۔۔۔۔۔


فرعون اور حضرتِ آسیہ کی ازدواجی زندگی کی ایک جھلک ۔۔۔۔ فرعون کی ظالمانہ اور جابرانہ حکومت ایک سچی تاریخ اور حضرتِ آسیہ کا فہم و ادراک ایک روایتِ مصدقہ ۔۔ ہزاروں نوزائیدہ بچے اسی فرعون کے حکم سے قتل ہوتے رہے۔ لیکن نجومیوں کی پیشینگوئیوں کے مطابق اس کی غرقابی اور بربادی کا سبب بننے والا بچہ بھی اسی محل میں حضرت آسیہ کی نگرانی میں پرورش پاتا رہا۔ پانی کی لہروں پر بہنے والے اس بچے کو اٹھوا کر اپنے محل میں منگوانے کی جرات اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتی ہۓ کہ حضرت آسیہ کا اس پر اعتماد تھا، اس کا حوصلہ تھا اور اس کا تجربہ تھا کہ وہ اپنی بات فرعون سے منوا سکتی ہیں خواہ یہ بات اس کے مزاج اور منشاء و مصلحت کے مطابق ہو یا نہ ہو۔۔۔۔۔۔ اور اگر یہاں صرف مشیت الہی کو حضرت آسیہ کا حامی قرار دیا جاۓ تب بھی یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہۓ کہ اصلاح کے نیک کام کے لۓ اٹھاۓ پہلے ہی قدم سے عورت کو تائید ایزدی مرد کی نسبت زیادہ سرعت کے ساتھ حاصل ہونے کے امکانات ہیں۔
ان تمام باتوں کو ملحوظ رکھتے ہوۓ میں نے اپنی تحریر میں عورت کو موجودہ حالت کے مقابلہ میں ایک برتر و اعلٰی مقام پر فائز دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا ہۓ۔ ہو سکتا ہۓ کہ اسے تعصب پر محمول قرار دیا جاۓ اور صنفِ نازک پر نہائت بے دردی سے کیا گیا وار سمجھ لیا جاۓ۔ (جبکہ میرا مقصد یہ نہیں ہۓ) ہاں یہ ضرور ہۓ کہ اپنی (عورتوں کی) بدحالی کی وجہ میں نے عورت کو ہی قرار دیا ہۓ بلکہ اس کی بے عملی، بے حسی اور کج فکری کو۔۔۔۔ میں اب بھی اس باب میں کسی صفائ کے پیش کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتا کیونکہ میرے خیال میں عورت اپنی حماقتوں کے زعم میں خود اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مارتی چلی آ رہی ہۓ ۔۔۔۔ اندھادھند ۔۔۔۔نتائج و عواقب سے قطعی بے پرواہ ہوکر ۔۔۔۔ جذبات کی رو میں فوراً بہہ جانے میں اس مخلوق کا کوئ جواب نہیں۔ لیکن جب یہی عورت اپنے مرتبہ و مقام کو پہچان لیتی ہۓ تو قدرت اسے جس زندہ جاوید انعام سے نوازتی ہۓ اسے دنیا کبھی ذبیح اللہ کے نام سے پہچانتی ہۓ کبھی حسین کے نام سے یاد دکھتی ہۓ۔ یہاں تک کہ مختلف ادوار میں اس کی گود کا پالا اپنے دَور کی عظمتوں کا رکھوالا بن کر گویا یہ اعلان کرتا ہۓ کہ


ثبت است بر جریدۂ عالم دوامِ ما

10-06-2020 posted on Facebook

_________________________________________________________________